انسان بوڑھا نہیں ہوتا، مجلس بوڑھا کر دیتی ہے۔

 ایک صاحب کی شادی کی عمر نکل گئی اور بڑھاپے میں اس کو ایک لڑکی پسند آ گئی تو رشتہ بھیج دیا۔ لڑکی نے دو شرطیں رکھیں اور شادی پر آمادہ ہو گئی:  

1. ہمیشہ جوانوں میں بیٹھو گے۔  

2. دیوار پھلانگ کر گھر آیا کرو گے۔  


شادی ہو گئی۔ بابا جی اب جوانوں میں ہی بیٹھتے اور گپیں لگاتے۔ ظاہر ہے کہ جوانوں کی باتوں کا محور عشق و محبت، دوستی اور زندگی کی شوخیاں ہوتیں۔ منڈیوں کے بھاؤ یا سنجیدہ موضوعات سے ان کا کوئی لینا دینا نہ تھا۔  

بابا جی کا موڈ ہر وقت رومینٹک رہنے لگا۔ جب گھر آتے تو ایک جھٹکے سے دیوار پھلانگ کر "دھم" سے اندر کودتے۔


آخر ایک دن بابا جی کے پرانے جاننے والے مل گئے۔ وہ انہیں محبت بھرے گلے شکوے کر کے اپنی مجلس میں لے گئے۔ اب وہاں کیا باتیں ہونی تھیں؟  

"یار گھٹنوں کے درد سے مر گیا ہوں، بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں..."  

"بھائی جان! میری تو ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ کھل گیا ہے، ڈاکٹر کہتا ہے جھٹکا نہ لگے..."  

"یار! مجھے تو اب کچھ نظر ہی نہیں آتا، کل غلطی سے پانی سمجھ کر مٹی کا تیل پی گیا، ڈرپ لگی تو جان بچی ہے..."  


بابا جی جوں جوں ان کی باتیں سنتے گئے، توں توں ان کا مورال گرتا گیا۔ جب مکمل طور پر دل بیٹھ گیا تو مجلس برخاست ہو گئی اور بابا جی گھسٹتے پاؤں لیے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔


گھر پہنچے، تو دیوار کو دیکھا۔ دیوار گھر کی نہ لگتی تھی بلکہ دیوارِ چین معلوم ہوتی تھی! ہمت نہ پڑی کہ دیوار پھلانگیں — کہیں بابے پھجے کی طرح کمر کا مہرہ نہ کھل جائے، آخر ماڈل تو ایک ہی تھا!  

بابا جی نے ہمت ہار کر دروازے کا کنڈہ کھٹکھٹایا۔  

اندر سے بیوی کی آواز آئی:  

"اسی لیے کہا تھا کہ ہمیشہ جوانوں میں بیٹھا کرو۔ لگتا ہے آج بوڑھوں کی مجلس میں بیٹھ آئے ہو، اسی لیے ہمت جواب دے گئی ہے!"


**نتیجہ:**  

انسان بوڑھا نہیں ہوتا، مجلس بوڑھا کر دیتی ہے۔  

ماہرینِ نفسیات لکھتے ہیں کہ اساتذہ جلدی بوڑھے نہیں ہوتے کیونکہ وہ بچوں کی مجلس میں رہتے ہیں، یوں وہ ماحول ان پر وقت اور حالات کے اثرات کو نیوٹرل کر دیتا ہے۔




Comments