مہنگی بجلی کے ناقابل برداشت بلوں کیخلاف شدید عوامی ردعمل،احتجاج اور مظاہروں کے بعد حکومت نے بالآخر 1994ءاور2002ءکی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کے تحت قائم آزاد پاور پروڈیوسر کمپنیوں (آئی پی پیز )سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہےاور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر بجلی کی پیداوار اور فروخت کے غیرمنصفانہ معاہدے ختم کرکے جتنی بجلی پیدا کریں ،اتنے ہی پیسے لینے کا نظام اختیار کریں،ورنہ نتائج بھگتنے کیلئے تیارہوجائیں۔ اس اہم پیشرفت کا انکشاف سرکاری ذرائع نے کیا ہے۔اس سلسلے میں ایک آئی پی پی کے مالکان کی حکومتی ٹاسک فورس کے
عہدیداروں سے پیر کو ملاقات متوق تھی ۔ان کمپنیوں کے مالکان میں اشرافیہ کے دولت مند لوگ بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔
معاہدوں کے تحت حکومت ان کمپنیوں کو انکی پیداواری گنجائش کے مطابق اربوں روپے کی ادائیگی کرتی ہے جبکہ ان میں سے بعض سرے سے بجلی پیدا ہی نہیں کرتیں یا صلاحیت کے مقابلے میں بہت کم بجلی صارفین کو فراہم کرتی ہیں۔مگر حکومت سے اصل پیداواری گنجائش کے مطابق قیمت وصول کرلیتی ہیں۔مستزاد یہ کہ یہ کمپنیاں مہنگا ترین ایندھن درآمد کرکے پیدا کی جانیوالی بجلی کے حکومت سے من مانے دام وصول کرلیتی ہیں اور سستی بجلی کے ذرائع کو نظر انداز کردیتی ہیں۔اسکا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت بجلی کے نرخ مسلسل بڑھارہی ہےاور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بجلی کے بل صارفین کی اجرتوں اور تنخواہوں سے بڑھ گئے ہیں اور لوگ خودکشی پر مجبور ہوگئے ہیں۔کاروبار ٹھپ ہورہے ہیں اور صنعتیں بند ہورہی ہیں ،جس سے معاشی صورتحال دگرگوں ہورہی ہے
۔ذرائع کے مطابق پانچوں کمپنیوں کے مالکان کو بتادیا گیا ہے کہ حکومت آئندہ تین سے پانچ برس کیلئے ان کی صلاحیت کے حساب سے 139سے150ارب روپے ادا کرے گی کیونکہ وہ پہلے ہی انھیں اضافی ادائیگیاں کرچکی ہےاور آئی پی پیز کے قرضے بھی ادا کردیے گئے ہیں۔ایک کمپنی کے مالک نے ٹاسک فورس کو پیشکش کی ہے کہ حکومت 55ارب روپے ادا کرے تو وہ نہ صرف معاہدہ ختم کرنے بلکہ کمپنی حکومت کےسپرد کرنے کیلئے بھی تیار ہے۔یہ پیشکش ٹھکرادی گئی ہے اور واضح کردیا گیا ہے کہ ان کے پاس معاہدہ ختم کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔مالکان کو یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ وہ پچھلے چارسال میں نقصانات کو غلط طریقے سے ظاہر کرکے اربوں روپے کا ناجائز منافع کماچکے ہیں،اسلئے انکی کوئی شرط قبول نہیںکی جاسکتی ۔وہ پہلے ہی حکومت کو دھوکہ دینے میں ملوث ہیں ۔حکومت نے ان پاور پلانٹس کا فرانزک آڈٹ کرانے اور غلط کاموں اور منافع خوری سے لیے گئےپیسے کی ریکوری کے علاوہ دوسرے قانونی اقدامات کا بھی عندیہ دیا ہے
۔بجلی کمپنیوں کو دوسال میں پرائیویٹ پاور مارکیٹ نظام یقینی بنانے کیلئے بھی کہا گیا ہےتاکہ موجودہ معاہدے ختم ہونے کے بعد وہ اپنی بجلی ملک کے بڑے کاروباری اداروں کو فروخت کرسکیں۔آئی پی پیز کی غیرمنصفانہ شرائط دراصل ماضی کی حکومتوں کے غلط فیصلوں ،منصوبہ بندی کے فقدان،بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب اور کم پیداوار کا نتیجہ ہیں،جن کا ازالہ ناگزیر ہوگیا ہے۔اسی ناقص منصوبہ بندی کے طفیل کالاباغ کا منصوبہ ترک کردیا گیا ،حالانکہ کثیراخراجات سے اسکے ابتدائی انتظامات بھی مکمل کرلیے گئے تھے۔آج 67فیصد بجلی مہنگے ایندھن سے تیار ہوتی ہے ،جس پر کثیرزرمبادلہ خرچ کیا جاتا ہے
۔آئی پی پیز کے بارے میں حکومت نے درست فیصلہ مگر تاخیر سے کیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی پی پیز سے مذاکرات میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ عام صارفین،تاجروں،صنعتوں اور زرعی ضروریات کیلئے بجلی طلب کے مطابق اور سستی فراہم کی جائے
Comments
Post a Comment